Results 1 to 2 of 2

Thread: آئینِ بندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam آئینِ بندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

    آئینِ بندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

    Ø+Ù‚ Ú©Ùˆ بہر Ø+ال Ø+Ù‚ سمجھو اور سے ادا کرو، اقتدار Ú©Ùˆ خدا Ú©ÛŒ امانت سمجھو اور اس یقین Ú©Û’ ساتھ اسے استعمال کرو کہ اس امانت کا پورا Ø+ساب تمہیں اپنے خدا Ú©Ùˆ دینا ہے

    اِسلام Ú©Û’ سیاسی نظام Ú©ÛŒ بنیاد تین اُصولوں پر رکھی گئی ہے۔ توØ+ید، رسالت اور خلافت۔ اِن اُصولوں Ú©Ùˆ اچھی طرØ+ سمجھے بغیر اسلامی سیاست Ú©Û’ تفصیلی نظام Ú©Ùˆ سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے میں انہی Ú©ÛŒ مختصر تشریØ+ کروں گا۔

    توØ+ید Ú©Û’ معنی یہ ہیں کہ خدا اس دنیا اور اس Ú©Û’ سب رہنے والوں کا خالق، پروردگار اور مالک ہے، Ø+کومت Ùˆ فرماں روائی اسی Ú©ÛŒ ہے، وہی Ø+Ú©Ù… دینے اور منع کرنے کا Ø+Ù‚ رکھتا ہے اور بندگی Ùˆ طاعت بِلاشرکتِ غیرے اسی کیلئے ہے۔ ہماری یہ ہستی جس Ú©ÛŒ بدولت ہم موجود ہیں ہمارے یہ جسمانی آلات اور طاقتیں جن سے ہم کام لیتے ہیں اور ہمارے وہ اختیارات جو ہمیں دنیا Ú©ÛŒ موجوادت پر Ø+اصل ہیں اور خود یہ موجودات جن پر ہم اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں‘ ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہماری پیدا کردہ یا Ø+اصل کردہ ہے اور نہ اس Ú©ÛŒ بخشش میں خدا Ú©Û’ ساتھ کوئی شریک ہے اس لیے اپنی ہستی کا مقصد اور اپنی قوتوں کا مصرف اور اپنے اختیارات Ú©ÛŒ Ø+دود متعین کرنا نہ تو ہمارا اپنا کام ہے نہ کسی دوسرے Ú©Ùˆ اس معاملہ میں دخل دینے کا Ø+Ù‚ ہے۔ یہ صرف اُس خدا کا کام ہے جس Ù†Û’ ہمیں اِن قوتوں اور اختیارات Ú©Û’ ساتھ پیدا کیا ہے اور دنیا Ú©ÛŒ یہ بہت سی چیزیں ہمارے تصرف میں دی ہیں۔ توØ+ید کا یہ اصول انسانی Ø+اکمیت Ú©ÛŒ سرے سے نفی کر دیتا ہے۔

    خدا کا قانون جس ذریعے سے بندوں تک پہنچتا ہے اس کا نام ’’رسالت ‘‘ ہے اس ذریعے سے ہمیں دو چیزیں ملتی ہیں Û” ایک ’’کتاب‘‘ جس میں خود خدا Ù†Û’ اپنا قانون بیان کیا ہے۔ دوسری کتاب Ú©ÛŒ مستند تشریØ+ جو رسول اکرمﷺ Ù†Û’ خدا کا نمائندہ ہونے Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے اپنے قول Ùˆ عمل میں پیش Ú©ÛŒ ہے۔ خدا Ú©ÛŒ کتاب میں وہ تمام اصول بیان کر دئیے گئے ہیں جن پر انسانی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیے اور رسول اکرم ï·º Ù†Û’ کتاب Ú©Û’ اس منشا Ø¡ Ú©Û’ مطابق عملاً ایک نظام زندگی بنا کر، چلا کر، اور اس Ú©ÛŒ ضروری تفصیلات بتا کر ہمارے لیے ایک نمونہ قائم کر دیا ہے۔ انہی دو چیزوں Ú©Û’ مجموعے کا نام اسلامی اصطلاØ+ میں شریعت ہے اور یہی وہ اساسی دستور ہے جس پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔

    اب خلافت Ú©Ùˆ لیجیے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت Ú©Û’ لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے دنیا میں انسان Ú©ÛŒ اصل Ø+یثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے یعنی اس Ú©Û’ ملک میں اس Ú©Û’ دئیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ آپ جب کسی شخص Ú©Ùˆ اپنی جائیداد کا انتظام سپرد کرتے ہیں تو لازماً آپ Ú©Û’ پیش نظر4 باتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جائیداد Ú©Û’ اصل مالک آپ خود ہیں نہ کہ وہ شخص۔ دوسرے یہ کہ آپ Ú©ÛŒ جائیداد میں اس شخص Ú©Ùˆ آپ Ú©ÛŒ دی ہوئی ہدایات Ú©Û’ مطابق کام کرنا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ اسے اپنے اختیارات Ú©Ùˆ ان Ø+دود Ú©Û’ اندر استعمال کرنا چاہیے جو آپ Ù†Û’ اس Ú©Û’ لیے مقرر کر دی ہیں۔ چوتھے یہ کہ آپ Ú©ÛŒ جائیداد میں اسے آپ کا منشا Ø¡ پورا کرنا ہو گا نہ کہ اپنا۔ یہ 4 شرطیں نیابت Ú©Û’ تصور میں اس طرØ+ شامل ہیں کہ نائب کا لفظ بولتے ہی خود بخود انسان Ú©Û’ ذہن میں آ جاتی ہیں۔ اگر کوئی نائب ان چاروں شرطوں Ú©Ùˆ پورا نہ کرے تو آپ کہیں Ú¯Û’ کہ وہ نیابت Ú©ÛŒ Ø+دود سے تجاوز کر گیا اور اس Ù†Û’ وہ معاہدہ توڑ دیا جو نیابت Ú©Û’ عین مفہوم میں شامل تھا۔ ٹھیک یہی معنی ہیں جن میں اِسلام انسان Ú©Ùˆ خدا کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور اس خلافت Ú©Û’ تصوّر میں یہی چاروں شرطیں شامل ہیں۔ اسلامی نظریہ Ù” سیاسی Ú©ÛŒ رُو سے جو ریاست قائم ہو Ú¯ÛŒ وہ دراصل خدا Ú©ÛŒ Ø+اکمیت Ú©Û’ تØ+ت انسانی خلافت ہو گی‘ جسے خدا Ú©Û’ ملک میں اس Ú©ÛŒ دی ہوئی ہدایات Ú©Û’ مطابق اس Ú©ÛŒ مقرر Ú©ÛŒ ہوئی Ø+دود Ú©Û’ اندر کام کر Ú©Û’ اس کا منشا Ø¡ پورا کرنا ہو گا۔

    خلافت Ú©ÛŒ اس تشریØ+ Ú©Û’ سلسلے میں اتنی بات اور سمجھ لیجیے کہ اس معنی میں اسلامی نظریۂ سیاسی کسی ایک شخص یا خاندان یا طبقے Ú©Ùˆ خلیفہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس پوری سوسائٹی Ú©Ùˆ خلافت کا منصب سونپتا ہے جو توØ+ید اور رسالت Ú©Û’ بنیادی اُصولوں Ú©Ùˆ تسلیم کر Ú©Û’ نیابت Ú©ÛŒ شرطیں پوری کرنے پر آمادہ ہو۔ ایسی سوسائٹی بØ+یثیت مجموعی خلافت Ú©ÛŒ مثال ہے اور یہ خلافت اس Ú©Û’ ہر فرد Ú©Ùˆ پہنچتی ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جہاں اِسلام میں ’’جمہوریت‘‘ Ú©ÛŒ ابتدا Ø¡ ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے کا ہر فرد خلافت Ú©Û’ Ø+قوق اور اختیارات رکھتا ہے۔ ان Ø+قوق Ùˆ اختیارات میں تمام افراد بالکل برابر Ú©Û’ Ø+صے دار ہیں۔ کسی Ú©Ùˆ کسی پر نہ ترجیØ+ Ø+اصل ہے اور نہ یہ Ø+Ù‚ پہنچتا ہے کہ اسے ان Ø+قوق Ùˆ اختیارات سے Ù…Ø+روم کر سکے۔ ریاست کا نظم Ùˆ نسق چلانے Ú©Û’ لیے جو Ø+کومت بنائی جائے Ú¯ÛŒ وہ انہی افراد Ú©ÛŒ مرضی سے بنے گی۔ یہی لوگ اپنے اختیاراتِ خلافت کا ایک Ø+صہ اسے سونپیں Ú¯Û’Û” اس Ú©Û’ بننے میں ان Ú©ÛŒ رائے شامل ہو Ú¯ÛŒ اور ان Ú©Û’ مشورے ہی سے وہ Ú†Ù„Û’ گی۔ جو ان کا اعتماد Ø+اصل کرے گا وہ ان Ú©ÛŒ طرف سے خلافت Ú©Û’ فرائض انجام دے گا اور جو ان کا اعتماد Ú©Ú¾Ùˆ دے گا اسے Ø+کومت Ú©Û’ منصب سے ہٹنا Ù¾Ú‘Û’ گا۔ اس Ù„Ø+اظ سے اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے، اتنی مکمل جتنی کوئی جمہوریت مکمل ہو سکتی ہے البتہ جو چیز اسلامی جمہوریت Ú©Ùˆ مغربی جمہوریت سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کا نظریۂ سیاسی ’’جمہوری Ø+اکمیت‘‘ کا قائل ہے اور اِسلام ’’جمہوری خلافت‘‘ کا۔ وہاں اپنی شریعت جمہور آپ بناتے ہیں۔ یہاں انہیں اس شریعت Ú©ÛŒ پابندی کرنا ہوتی ہے جو خدا Ù†Û’ اپنے رسولﷺ Ú©Û’ ذریعے سے دی ہے وہاں Ø+کومت کا کام جمہور کا منشا Ø¡ پورا کرنا ہوتا ہے۔ یہاں Ø+کومت اور اس Ú©Û’ بنانے والے جمہور سب کا کام خدا کا منشا Ø¡ پورا کرنا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے جو اپنے اختیارات Ú©Ùˆ آزادانہ استعمال کرتی ہے۔ اس Ú©Û’ برعکس اسلامی جمہوریت ایک پابندِ آئینِ بندگی ہے جو اپنے اختیارات Ú©Ùˆ خدا Ú©ÛŒ دی ہوئی ہدایات Ú©Û’ مطابق اس Ú©ÛŒ مقرر کردہ Ø+دود Ú©Û’ اندر استعمال کرتی ہے۔

    اب میں آپ Ú©Û’ سامنے اس ریاست کا ایک مختصر مگر واضØ+ نقشہ پیش کروں گا۔ جو توØ+ید رسالت اور خلافت Ú©ÛŒ ان بنیادوں پر بنتی ہے۔

    اس ریاست کا مقصد قرآن میں صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ان بھلائیوں Ú©Ùˆ قائم کرے فروغ دے اور پروان چڑھائے جن سے خدا وند عالم انسانی زندگی Ú©Ùˆ آراستہ دیکھنا چاہتا ہے اور ان برائیوں Ú©Ùˆ روکے، دبائے اور مٹائے جن کا وجود انسانی زندگی میں خداوند عالم Ú©Ùˆ پسند نہیں ہے۔ اِسلام میں ریاست کا مقصد Ù…Ø+ض انتظامِ ملکی ہے نہ یہ کہ وہ کسی خاص قوم Ú©ÛŒ اجتماعی خواہشات Ú©Ùˆ پورا کرے۔ اس لیے اِسلام اس Ú©Û’ سامنے ایک بلند نصب العین رکھ دیتا ہے جس Ú©Û’ Ø+صول میں اسے اپنے تمام وسائل Ùˆ ذرائع اور اپنی تمام طاقتیں صرف کرنی چاہییں، اور وہ یہ ہیں کہ خدا اپنی زمین پر اور اپنے بندوں Ú©ÛŒ زندگی میں جو پاکیزگی، جو Ø+سن، جو خیروصلاØ+ØŒ جو ترقی Ùˆ فلاØ+ دیکھنا چاہتا ہے وہ رونما ہو، اور بگاڑ Ú©ÛŒ ان تمام صورتوں کا سدِّباب ہو جو خدا Ú©Û’ نزدیک اس Ú©ÛŒ زمین Ú©Ùˆ اجاڑنے والی اور اس Ú©Û’ بندوں Ú©ÛŒ زندگی Ú©Ùˆ خراب کرنے والی ہیں۔ اس نصب العین Ú©Ùˆ پیش کرنے Ú©Û’ ساتھ اِسلام ہمارے سامنے خیروشر دونوں Ú©ÛŒ ایک واضØ+ تصویر رکھتا ہے جس میں مطلوبہ بھلائیوں اور ناپسندیدہ برائیوں Ú©Ùˆ صاف صاف نمایاں کر دیا گیا ہے۔ اس تصویر Ú©Ùˆ نگاہ میں رکھ کر ہر زمانے اور ہرماØ+ول میں اسلامی ریاست اپنا اصلاØ+ÛŒ پروگرام بنا سکتی ہے۔

    اِسلام کا مستقل تقاضا یہ ہے کہ زندگی Ú©Û’ ہر شعبے میں اخلاقی اصولوں Ú©ÛŒ پابندی Ú©ÛŒ جائے۔ اس لیے وہ اپنی ریاست Ú©Û’ لیے بھی یہ قطعی پالیسی متعین کر دیتا ہے کہ اس Ú©ÛŒ سیاست بے لاگ انصاف ØŒ بے لوث سچائی اور کھری ایمان داری پر قائم ہو، وہ ملکی، یا انتظامی یا قومی مصلØ+توں Ú©ÛŒ خاطر جھوٹ، فریب اور بے انصافی Ú©Ùˆ کسی Ø+ال میں گوارا کرنے Ú©Û’ لیے تیار نہیں ہے۔ ملک Ú©Û’ اندر راعی اور رعیّت Ú©Û’ باہمی تعلقات ہوں یا ملک Ú©Û’ باہر دوسری قوموں Ú©Û’ ساتھ تعلقات، دونوں میں وہ صداقت، دیانت اور انصاف Ú©Ùˆ اغراض Ùˆ مصالØ+ پر مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ مسلمان افراد Ú©ÛŒ طرØ+ مسلم ریاست پر بھی وہ یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ عہد کرو تو اسے وفا کرو، لینے اور دینے Ú©Û’ پیمانے یکساں رکھو، جو Ú©Ú†Ú¾ کہتے ہو وہی کرو اور جو Ú©Ú†Ú¾ کرتے ہو، وہی کہو، اپنے Ø+Ù‚ Ú©Û’ ساتھ اپنے فرض Ú©Ùˆ بھی یاد رکھو، اور دوسرے Ú©Û’ فرض Ú©Û’ ساتھ اس Ú©Û’ Ø+Ù‚ Ú©Ùˆ بھی نہ بھولو، طاقت Ú©Ùˆ ظلم Ú©Û’ بجائے انصاف Ú©Û’ قیام کا ذریعہ بنائو۔ Ø+Ù‚ Ú©Ùˆ بہرØ+ال Ø+Ù‚ سمجھو اور اسے ادا کرو، اقتدار Ú©Ùˆ خدا Ú©ÛŒ امانت سمجھو اور اس یقین Ú©Û’ ساتھ اسے استعمال کرو کہ اس امانت کا پورا Ø+ساب تمہیں اپنے خدا Ú©Ùˆ دینا ہے۔

    اسلامی ریاست اگرچہ زمین Ú©Û’ کسی خاص خطے ہی میں قائم ہوتی ہے، مگر وہ نہ انسانی Ø+قوق Ú©Ùˆ ایک جغرافی Ø+د میں Ù…Ø+دود رکھتی ہے اور نہ شہریت Ú©Û’ Ø+قوق Ú©ÙˆÛ” جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے اِسلام ہر انسان Ú©Û’ لیے چند بنیادی Ø+قوق مقرر کرتا ہے اور ہر Ø+ال میں ان Ú©Û’ اØ+ترام کا Ø+Ú©Ù… دیتا ہے، خواہ وہ انسان اسلامی ریاست Ú©ÛŒ Ø+دود میں رہتا ہو یا اس سے باہر، خواہ دوست ہو یا دشمن، خواہ صلØ+ رکھتا ہو یا برسرِ جنگ ہو۔ انسانی خون ہرØ+الت میں Ù…Ø+ترم ہے اور Ø+Ù‚ Ú©Û’ بغیر اسے نہیں بہایا جا سکتا۔ عورت، بچے، بوڑھے، بیمار اور زخمی پر دست درازی کرنا کسی Ø+ال میں جائز نہیں۔ عورت Ú©ÛŒ عصمت بہرØ+ال اØ+ترام Ú©ÛŒ مستØ+Ù‚ ہے Û” بھوکا آدمی روٹی کا، ننگا آدمی Ú©Ù¾Ú‘Û’ کا‘ زخمی یا بیمار آدمی علاج اور تیمار داری کا بہرØ+ال مستØ+Ù‚ ہے خواہ دشمن قوم ہی سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ اور ایسے ہی چند دوسرے Ø+قوق اِسلام Ù†Û’ انسان Ú©Ùˆ بØ+یثیت انسان ہونے Ú©Û’ عطا کیے ہیں اور اسلامی ریاست Ú©Û’ دستور میں انہیں بنیادی Ø+قوق Ú©ÛŒ جگہ Ø+اصل ہے۔ رہے شہریت Ú©Û’ Ø+قوق تو وہ بھی اِسلام صرف انہی لوگوں کونہیں دیتا جو اس Ú©ÛŒ ریاست Ú©ÛŒ Ø+دود میں پیدا ہوئے ہوں بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ دنیا Ú©Û’ کسی گوشے میں پیدا ہوا ہو، اسلامی ریاست Ú©ÛŒ Ø+دود میں داخل ہوتے ہی آپ سے آپ اس کا شہری بن جاتا ہے اور پیدائشی شہریوں Ú©Û’ برابر Ø+قوق کا مستØ+Ù‚ قرار پاتا ہے۔ دنیا میں جتنی اسلامی ریاستیں بھی ہوں Ú¯ÛŒ ان سب Ú©Û’ درمیان شہریت مشترک ہو گی۔ مسلمان Ú©Ùˆ کسی اسلامی ریاست Ú©ÛŒ Ø+دود میں داخل ہونے Ú©Û’ لیے پاسپورٹ Ú©ÛŒ ضرورت نہ ہو گی۔ مسلمان کسی نسلی، قومی یا طبقاتی امتیاز Ú©Û’ بغیر ہر اسلامی ریاست میں کسی بڑے سے بڑے ذِمّہ داری Ú©Û’ منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔

    غیر مسلمانوں کیلئے، جو کسی اسلامی ریاست Ú©ÛŒ Ø+دود میں رہتے ہوں، اِسلام Ù†Û’ چند Ø+قوق معین کر دئیے ہیں اور وہ لازما ًدستور اسلامی کا جزو ہوں Ú¯Û’Û” اسلامی اصطلاØ+ میں ایسے غیر مسلم Ú©Ùˆ ’’ذِمّی‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی جس Ú©ÛŒ Ø+فاظت کا اسلامی ریاست Ù†Û’ ذمہ Ù„Û’ لیا ہے۔ ذِمّی Ú©ÛŒ جان Ùˆ مال اور آبرو مسلم Ú©ÛŒ طرØ+ Ù…Ø+ترم ہے۔ فوج داری اور دیوانی قوانین میں مسلم اور ذِمّی Ú©Û’ درمیان کوئی فرق نہیں۔ ذمیوں Ú©Û’ پرسنل لاء میں اسلامی ریاست کوئی مداخلت نہ کرے گی۔ ذمیوں Ú©Ùˆ ضمیر Ùˆ اعتقاد اور مذہبی رسوم Ùˆ عبادات میں پور ÛŒ آزادی Ø+اصل ہو گی۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے Ø+قوق اسلامی دستور میں غیر مسلم رعایا Ú©Ùˆ دئیے گئے ہیں اور یہ مستقل Ø+قوق ہیں جنہیں اس وقت تک سلب نہیں کیا جا سکتا، جب تک وہ ہمارے ذمے سے خارج نہ ہو جائیں۔ کوئی غیر مسلم Ø+کومت اپنی مسلم رعایا پر چاہے کتنے ہی ظلم ڈھائے، ایک اسلامی ریاست کیلئے اس Ú©Û’ جواب میں اپنی غیر مسلم رعایا پر شریعت Ú©Û’ خلاف ذرا سی دست درازی کرنا بھی جائز نہیں۔ Ø+تیٰ کہ ہماری سرØ+د Ú©Û’ باہر اگر سارے مسلمان قتل کر دئیے جائیں تب بھی ہم اپنی Ø+د Ú©Û’ اندر ایک ذِمّی کا خون بھی Ø+Ù‚ Ú©Û’ بغیر نہیں بہا سکتے۔

    اسلامی ریاست Ú©Û’ انتظام Ú©ÛŒ ذِمّہ داری ایک امیر Ú©Û’ سپرد Ú©ÛŒ جائے Ú¯ÛŒ جسے صدرِ جمہوریہ Ú©Û’ مماثِل سمجھنا چاہیے۔ امیر Ú©Û’ انتخاب میں ان تمام بالغ مردوں اور عورتوں Ú©Ùˆ رائے دینے کا Ø+Ù‚ ہو گا جو دستور Ú©Û’ اصولوں Ú©Ùˆ تسلیم کرتے ہوں۔ انتخاب Ú©ÛŒ بنیاد یہ ہو Ú¯ÛŒ کہ روØ+ِ اِسلام Ú©ÛŒ واقفیت، اسلامی سیرت، خدا ترسی اور تدبر Ú©Û’ اعتبار سے کون شخص سوسائٹی Ú©Û’ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے۔ ایسے شخص Ú©Ùˆ امارت Ú©Û’ لیے منتخب کیا جائے گا۔

    امیر اور اس Ú©ÛŒ Ø+کومت پر عام شہریوں Ú©Ùˆ نکتہ چینی کا پورا Ø+Ù‚ Ø+اصل ہو گا۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی اُن Ø+دود Ú©Û’ اندر ہو Ú¯ÛŒ جو شریعت میں مقرر Ú©ÛŒ گئی ہیں۔ خدا اور رسول ï·º Ú©Û’ واضØ+ اØ+کام اطاعت کیلئے ہیں۔ اِسلام میں عدالت انتظامی Ø+کومت Ú©Û’ ماتØ+ت نہیں ہے بلکہ براہِ راست خدا Ú©ÛŒ نمائندہ اور اُسے جواب دہ ہے۔ Ø+اکمانِ عدالت Ú©Ùˆ مقرر تو انتظامی Ø+کومت ہی کرے گی، مگر جب ایک شخص عدالت Ú©ÛŒ کرسی پر بیٹھ جائے گا تو خدا Ú©Û’ قانون Ú©Û’ مطابق لوگوں Ú©Û’ درمیان بے لاگ انصاف کرے گا اور اس Ú©Û’ انصاف Ú©ÛŒ زد میں خود Ø+کومت بھی نہ بچ سکے گی، Ø+تیٰ کہ خود Ø+کومت Ú©Û’ رئیسِ اعلیٰ Ú©Ùˆ بھی مدعی یا مدعا علیہ Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے اس Ú©Û’ سامنے اسی طرØ+ Ø+اضر ہونا Ù¾Ú‘Û’ گا جیسے ایک عام شہری Ø+اضر ہوتا ہے۔

    (یہ تقریر20۔ جنوری 1948ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)





  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: آئینِ بندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •